Submitted by گمنام (غیر مصدقہ) on Tue, 09/14/2021 - 15:19
BANKING FOR PROSPERITY
بینکاری خوشحالی کے لیے۔ گووند

تین بچوں کا باپ گووند، غربت کی زندگی گزارنے والے لاکھوں پاکستانیوں میں سے ایک تھا۔ سندھ کے اس باسی کی زندگی اپنے خاندان کے لئے تین وقت کا کھانا فراہم کرنے کے لئے جدوجہد کرتے گزری۔ لڑکپن میں ہی گووند نے اس مایوسی اور جدوجہد کو جان لیا تھا جو غربت اپنے ساتھ لاتی ہے۔ گووند وہ وقت یاد کرتا ہے جب وہ ایک بچہ تھا اور بڑا ہوکر اسکول ٹیچر بننا چاہتا تھا۔ مالی مشکلات اور گھر کی ذمہ داریوں نے گووند کو اپنا خواب پورا کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ مزید براں ایک اقلیتی برادری سے تعلق بھی مشکلات میں مددگار نہ تھا. اسے اس بات کا یقین تھا کہ اگر اس نے فوری طور پر کوئی قدم نہ اٹھایا تو تعلیم تک رسائی کے بغیر شدید غربت اس کی طرح اس کے بچوں کا بھی مقدر بن جائے گی.

گووند کے والد نے اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے لئے زندگی بھر سخت محنت کی۔ جوتے بنانے والی ایک دوکان میں 35 سال تک کام کرنے کے باوجود وہ اپنے یا اپنے خاندان کے لئے کچھ نہ بچا سکے۔ گاؤں سے نقل مکانی کرتے وقت گووند کے خاندان کے پاس صرف 70 روپے اور باپ کا جوتے بنانے کا ہنر تھا۔ ابتدائی طور پر چند رشتہ داروں نے ان کی مدد کی لیکن وہ بھی مالی لحاظ سے کمزور تھے۔ گووند نے اپنا چپل بنانے کا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے والد کو مدد کے لئے قائل کیا۔ اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ پیسے کی کمی تھی. 

2007 میں خوشحالی مائیکروفنانس بینک کا ایک فیلڈ لون آفیسر گووند کے پاس گیا جس نے ابھی اپنا جوتوں کا کاروبار شروع نہیں کیا تھا۔ خوشحالی مائیکرو فنانس بینک پاکستان کی غربت میں کمی کی حکمت عملی اور مائیکرو فنانس سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کا حصہ ہے جو سرمائے تک رسائی کے لئے پاک امریکہ پارٹنرشپ کی مالی معاونت سے چلنے والے USAID کا پارٹنر ہے ۔ مائیکرو فنانسنگ نے کمرشل بینکنگ کے لئے غیرموزوں سمجھے جانے والے کاروباروں کے لئے چھوٹے پیمانے پر قرضے فراہم کر کے غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں کو کامیابی سے معاشی اور سماجی ترقی کے سفر پر گامزن کیا ہے۔ قرضے تک رسائی کے بغیر گووند جیسے کاروباری افراد منافع نہیں کما سکتے۔

عام طور پر کمرشل بینک چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری شعبے میں سرمایہ کاری کو خطرناک سمجھتے ہیں۔ کمرشل بینکنگ کی پابندیوں کے باعث مائیکرو اور چھوٹے کاروباری افراد کے لیے باضابطہ طریقے سے قرضہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا اور انہیں قرضہ لینے کے لئے بے ضابطہ اور عموماً استحصالی طریقوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں 3.2 ملین مختلف نوعیت کے کاروباروں میں سے تقریبا تین ملین کاروبار اس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار میں 30 فیصد سے زائد کے حصے دار ہیں۔ قرضے تک محدود رسائی نے معیشت کی ترقی کے لیے اس شعبے کا راستہ روک رکھا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تقریباً 80 فیصد آبادی کو تجارتی بینکوں کی مالیاتی خدمات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ مائیکرو فنانس ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس کا ہدف جو کاروبار کے آغاز اور اس کے فروغ کے مواقع فراہم کرکے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں ایک مستحکم تبدیلی لارہی ہے۔ خوشحالی بینک نے پہلی بار قرض وصول کرنے والے گووند کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ 10,000 روپے کا قرضہ حاصل کرکے اپنا جوتے بنانے کا کاروبار شروع کر دے۔ اس نئے کاروبار کرنے والے نے اس کامیابی پر اطمینان کا سانس لیا۔ گووند اب اپنی مہارت کو بامِ عروج پر پہنچا چکا ہے۔ وہ یاد کرتا ہے کہ ماضی میں اس کی آمدنی اتنی قلیل تھی کہ ہفتہ ختم ہونے سے پہلے ہی رقم ختم ہو جاتی تھی۔ اس قرض نے اسے اس قابل بنایا کہ وہ حیدرآباد جا کر اتنا سامان لے آئے جس سے وہ ایک جوڑے سے زیادہ جوتے بنا سکے۔ اس نے پیداوار بڑھانے کے لئے ایک مشین خریدی اور دو ملازم رکھ لئے۔ جلد ہی گووند جوتوں کے 10 جوڑے بنانے اور فی جوڑا 100 روپے وصول کرنے کے قابل ہوگیا اور بالآخرکاروبار میں مزید سرمایہ لگانے کے لیے بچت کرنے لگا۔

ابتدائی طور پر گووند کو خوشحالی مائیکرو فنانس بینک کی طرف سے صرف 10,000 روپے کا قرضہ دیا گیا تھا لیکن وقت پر قسطیں جمع کرانے سے اس کے اور بینک کے درمیان اچھے روابط قائم ہو گئے۔ نتیجتاً اس کے  قرضے کی حد بڑھا دی گئی اور حال ہی میں بینک نے اس کے لئے 125,000 روپے کے قرض کی منظوری دی ہے۔ خوشحالی بینک کے مائیکرو فنانس قرضے کی بدولت گووند کا کاروبار اچھا چل رہا ہے، اس کے بچے اسکول جا رہے ہیں اور اب وہ اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے اگرچہ خود اسے اس حق سے محروم رکھا گیا.

گووند اس بات کا ثبوت ہے کہ جب محنت کرنے والے پاکستانیوں کو غربت سے نکلنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے تو کیا تبدیلی آتی ہے۔ مناسب معاونت ملنے پر ایک فرد اور ایک خاندان اپنے مستقبل کو سنوار سکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں غربت ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے لیکن گووند کی کہانی ہمیں اس کا ممکنہ حل بتاتی ہے.