Submitted by گمنام (غیر مصدقہ) on Mon, 09/13/2021 - 23:28
MUHAMMAD AZEEM
محمد عظیم

 گوادر کے ضلع سربندر سے تعلق رکھنے والے محمد عظیم کا کہنا ہے کہ پولٹری بزنس مشکل ضرور ہے لیکن اس میں منافع بھی اچھا ملتا ہے۔ اس کا کاروبار ترقی کر رہا ہے لیکن چھ سال پہلے حالات بالکل مختلف تھے جب عظیم نے خوشحالی کی طرف پہلا قدم اٹھایا تھا۔ وہ قدم جس نے اسے اپنے خاندان کے روشن اور بہتر مستقبل کی تلاش میں زندگی کے مشکل اور پیچیدہ راستوں سے گزار کر انتہائی غریبی کے حالات سے آزادی فراہم کی. عظیم کی پیدائش ایک غریب گھرانے میں ہوئی تھی جہاں اتنے وسائل نہ تھے کہ اسے سکول بھیجا جا سکے اور جہاں ایک مایوس کن مستقبل اس کا منتظر تھا۔ تاہم عظیم نے ایک مضبوط اور پرعزم انسان ہونے کے ناتے امید کا دامن نہیں چھوڑا اور زندگی کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے سخت محنت جاری رکھی۔ اس کا مقصد اپنی برادری کے لوگوں کے لیے مثالی کردار ادا کرنا تھا جو روزمرہ زندگی کے مسائل میں کھو چکے تھے۔

گوادر سے 26 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سربندر میں لوگ زیادہ تر کاشتکاری یا پولٹری کا کا روبار کرتے ہیں۔ اسی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اس نے اپنے ایک دوست کے پولٹری فارم پر 150 روپے یومیہ پر نوکری شروع کی۔ دن رات کام کرنے کے باوجود اس کی آمدنی گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ناکافی تھی۔ وہ پھر بھی پرامید تھا اور اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ وہ ایسے وسائل اور ذارئع کی تلاش میں تھا جن سے وہ بڑے پیمانے پر پولٹری کا کاروبار شروع کر کے اپنی آمدنی بڑھا سکے اور اپنے خاندان کو انتہائی غربت کی دلدل سے نکال سکے۔ عظیم کو معلوم تھا کہ پولٹری کا کاروبار شروع کرنے کے لئے اسے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے اس لئے اس نے پولٹری کی دوکان سےملنے والی اپنی معمولی سی اجرت سے پیسے جمع کرنا شروع کر دیئے لیکن بہت جلد اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس طریقے سے کاروبار شروع نہیں کر سکے گا۔ لیکن جیسے کہا جاتا ہے خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اسے اس وقت راستہ مل گیا جب اس کے ایک دوست نے اسے مائیکرو فنانس کے بارے میں بتایا جو 2005 میں اسے خوشحالی مائیکرو فنانس بینک کے دروازے تک لے گیا. قرض کی رقم سے اس نے پولٹری کے لئے ایک بڑے سائز کا پنجرہ خریدا۔ اس نے سخت گرمی میں مرغیوں کو گرمی سے بچانے کے لئے ایک واٹر کولر بھی خریدا۔ ان اہم اقدامات سے اس کی مرغیاں علاقے کے دیگر لوگوں کی مرغیوں کی نسبت بہتر معیار کی ہوتی تھیں اس طرح وہ بہتر قیمت کے لیے بھاؤ تاؤ کر سکتا تھا جس کے نتیجے میں پہلے ہی مہینے میں اس نے 10000 روپے کما لیے۔ کسی ناکامی کے خوف کے بغیراب اس نے ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ اپنے کاروبار کو پھیلانے کے بارے میں سوچا۔ پہلا قرض ادا کرنے کے بعد اس نے بینک سے مزید قرض لیا جس سے اس نے اپنے کاروبار میں مزید سرمایہ کاری کی اور نتیجتاً پہلے سے زیادہ منافع کمایا.۔ حال ہی میں عظیم نے پانچویں مرتبہ قرض لیا ہے. اب اس کے پاس 2000 برائلر مرغیاں ہیں جن سے وہ 45000 روپے ماہانہ کماتا ہے۔ مرغیوں کا خیال وہ خود رکھتا ہے جبکہ چوزے، ان کی خوراک اور مرغیوں کی خریدوفروخت میں اس کا بیٹا اس کی مدد کرتا ہے۔ علاقے میں اپنی پولٹری کی دوکان چلانے کے لئے اس نے تین ملازم رکھ لیے ہیں۔ محمد عظیم ایک ڈیلرشپ بھی چلاتا ہے جہاں سے علاقے کے دوسرے فارم مالکان چوزے خریدتے ہیں۔ وہ اب نہ صرف اپنے لئے کماتا ہے بلکہ دوسروں کو اپنے کاروبار میں شامل کر کے روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔

محمد عظیم اپنے کاروبار کے لئے مزید منصوبے بناتا رہتا ہے اور ایک ٹمپریچر کنٹرولڈ پولٹری فارم قائم کرنے کا خواہش مند ہے جہاں وہ مرغیوں کو سخت گرمی سے محفوظ رکھ سکے۔ وہ سربندر میں مرغیوں کے ساتھ ساتھ گھی، چاول، دالیں، چینی اور سبزیاں وغیرہ فروخت کر کے اپنے کاروبار میں تنوع لانا چاہتا ہے۔ اسے تخلیقی خیالات سوجھتے رہتے ہیں اور وہ اپنی برادری کے لوگوں کو اپنے کاروبار میں شامل کر کے خود مختار بنانے کے لیے تمام نئے مواقعوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ محمد عظیم کی اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے خدمات کو 2010 میں ہونے والی سٹی پی پی اے ایف ایوارڈز کی تقریب میں تسلیم کیا گیا اور اسے بلوچستان سے بہترین رنر اپ علاقائی مرد اینٹرپریںیور منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس کو انتھک کوششوں پر نقد انعام سے بھی نوازا گیا۔